حقیقت پر مبنی تجزیہ۔
حماد اظہر صاحب نے پہلے بھی پنجاب کا بیڑہ غرق کیا ہے اور اب محلاتی سازشوں سے مزید اِس پارٹی کا بیڑہ غرق کرنا چاہتے ہیں حماد اظہر صاحب خود کچھ کر نہیں سکے تو اب چاہتے ہیں کہ باقی بھی ناکام ہوں تاکہ اُن کی سیاست بچی رہے۔
تجزیاتی نوٹ۔
سلمان اکرم راجہ صاحب کے کردار اور تنظیمی کردار پر ایک ذاتی مشاہدہ🚨 سلمان اکرم راجہ صاحب بلاشبہ ایک نفیس، شریف اور اعلیٰ پائے کے قانون دان ہیں۔ان کی نیت، کردار اور فہمِ قانون پر دو رائے نہیں۔خان صاحب کا اُن پر اعتماد بجا ہے،وہ اُس وقت بھی خان صاحب کے قریب رہے جب بہت سے لوگ ساتھ چھوڑ گئے۔تاہم، یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیاست اور قانون دو بالکل مختلف میدان ہیں۔قانون میں دلیل اور منطق چلتی ہے، جبکہ سیاست میں جذبہ، تنظیم اور عوامی حرارت۔میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ سلمان اکرم راجہ صاحب کی اصل قوت قانونی و وکلا برادری کے معاملات میں ہے،لیکن تنظیمی یا عوامی تحریک چلانے کی صلاحیت ان کی فطری ڈومین میں شامل نہیں۔وہ ایک بااصول اور نظم و ضبط والے انسان ہیں، مگر سیاسی میدان کے اتار چڑھاؤ کو وہ مزاجی طور پر absorb نہیں کر پارہے۔ گزشتہ چند ماہ میں، خصوصاً لاہور کی تنظیمی تبدیلی کے بعد سے،لاہور کی سیاسی فضا بالکل منجمد ہو چکی ہے۔جہاں پہلے کچھ نہ کچھ سیاسی سرگرمی، احتجاج اور عوامی نبض تھی،اب وہاں خاموشی اور بے عملی نظر آتی ہے۔اسی طرح سینٹرل پنجاب کی صدارت کے حوالے سے آنے والی تین چار متضاد ٹویٹس کبھی لاعلمی، کبھی تصدیق، کبھی مبارکباد یہ سب اس بات کا اظہار ہیں کہ فیصلے اُس جگہ سے ہو رہے ہیں،جہاں سیاسی حرکیات کی سمجھ کم اور قانونی مزاج غالب ہے۔بہتر ہوتا کہ راجہ صاحب اس معاملے پر مکمل انویسٹیگیشن اور تفصیلی تصدیق کے بعدایک ہی جامع ٹویٹ کرتے،اگر تصدیق کے بعد مؤقف دیا جاتا تو وہ زیادہ مناسب، مضبوط اور سیاسی طور پر متوازن ہوتا۔میں یہ نہیں کہتا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب بدنیت ہیں یا کمپرومائزڈ،لیکن یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ان کے اردگرد موجود حلقہ،خاص طور پر حماد اظہر گروپ، فیصلوں پر غیرضروری اثر ڈال رہا ہے۔یہ اثر پارٹی کے اندر توازن بگاڑ رہا ہے،جس کا نقصان پاکستان تحریکِ انصاف اور حقیقی آزادی کی تحریک دونوں کو ہو رہا ہے۔اس وقت تحریکِ انصاف کو ایسے سیاسی دماغوں کی ضرورت ہے،جو میدان، کارکن اور عوامی جذبات کو سمجھتے ہوں۔اس لیے بہتر ہوگا کہ سلمان اکرم راجہ صاحب قانونی و آئینی امور پر اپنی توجہ رکھیں،جیسے کہ 9 مئی 26 نومبر اور دیگر جھوٹے کیسز میں عمران خان اور بُشرا بی بی سمیت تمام جیل اسیران کے کیسز اور سزائیں انتخابی نشان اور انٹرا پارٹی الیکشن کے حوالے سے تمام کیسز کو اپنی زیرنگرانی ڈیل کریں۔ جبکہ سیکرٹری جنرل پاکستان جیسے سیاسی عہدے پرکسی تجربہ کار سیاسی ورکر جیسے جنید اکبر صاحب کو ذمہ داری دی جائے۔یہ فیصلہ پارٹی کے اندر توازن، اعتماد،اور خان صاحب کے پیغامات پر مؤثر عملدرآمد کے لیے زیادہ سودمند ثابت ہوگا! کوئی بھی دوست میری یہ رائے خلوصِ نیت سے خان صاحب تک پہنچاکر شکریہ ادا کرنے کا موقع عنایت فرمائے